Saturday, May 23, 2015

تمہارے اتنے سوالوں کا ایک جواب

جعلی ڈگری اسکینڈل پر ایف آئی اے کی تحقیقات کا دائرہ وسیع ہوگیا، وزیر داخلہ نے انٹر پول اور ایف بی آئی سے بھی مدد مانگ لی اور فرمایا کہ میڈیا کسی کے پیچھے لگ جائے تو اسے اللہ ہی بچا سکتا ہے،،، واقعی اس میں کوئی شک نہیں،  میڈیا سے وابستہ ہوئے مجھے زیادہ عرصہ نہیں ہوا لیکن اتار چڑھاو ضرور دیکھے جو اتفاق اس بار دیکھا وہ بھی پہلے کبھِی  نہیں دیکھا۔ میرا پہلا ادارہ جیو تھا، میں نے ڈھائی برسوں میں ہر اس شخص کے ساتھ کام کیا جس نے جیو کو بنایا، تجرنے اور قابلیت میں ہر وہ شخص جو اس ادارے سے وابستہ رہا میرے کام میں مددگار رہا۔ صحافتی ذمہ داریاں ادا کیسے کرنی ہے یہ وہاں کا پروڈیوسر ہو یا اسائمنٹ پر بیٹھا شخص یا پھر فیلڈ پر اترنے والا جانباز کیمرامین اس سے میں نے بہت کچھ سیکھا لیکن پھر بھی میں کھلے دل سے تسلیم کرتی ہوں کہ مجھے صحافی میرے کیمرامین نے بنایا وہی میری طاقت بنے، میں کسی مشکل میں پھنستی تو اس بچے کی مانند اپنے کیمرامین کو دیکھتی جسے پانی کی گہرائی میں اتارا گیا ہو اور اسے ابھی ٹھیک سے تیرنا بھی نہ آتا ہو، اس کڑے وقت میں میرا کیمرامین چاہے وہ کوئی بھی ہو یہ کہتا " میرے ہوتے ہوئے تمہیں فکرمند ہونے کی کیا ضرورت ہے" یہ ایک جملہ میری سوچ کو تبدیل کردیتا تھا۔ جہاں میرے اس  بے لگام میڈیا میں کئی استاد ہیں وہاں فیلڈ میں کام کیسے کرنا ہے کس طرح کرنا ہے یہ میرے کیمرامین نے مجھے سکھایا، کبھی آٹھ گھنٹے سے زیادہ ڈیوٹی دی تو میرے ساتھ کام کرنے والے کیمرامین نے اپنے ڈیوٹی آورز ختم ہونے کے باوجود میرے ساتھ کام کیا، میں نہیں بھول سکتی وہ وقت جب پی ٹی آئی کی جانب سے شاہراہ فیصل پر مجھ سمیت دیگر ساتھیوں پر تحریک انصاف کے بلوائیوں نے حملہ کیا، بوتلوں، پتھروں، مغلظات، میرے ادارے یہاں تک کے مجھے اور میرے والدین تک کو نازیبا الفاظ سے نوازا  گیا۔اس وقت بھی میرا کیمرامین مجھے یہ کہتا رہا کہ پریشان نہیں ہونا میں یہاں کھڑا ہوں تم نے ہمت نہیں ہارنی، میرے پروڈیوسر جو محفوظ جگہ پر تھے میری وجہ سے اس مقام پر آئے جہاں میں موجود تھی میرے رپورٹرنے بھی میرا ساتھ دینے کے لئے خود کو خطرے میں ڈالا،،، میرے فیملی نے یہ مناظر لائیو دیکھے تو میری ماں کو کیا محسوس ہوا ہوگا یہ آپ بھی محسوس کرسکتے ہیں لیکن دوسری جانب میری فیملی کا کہنا تھا کہ سدرہ اکیلی نہیں ہے اسکی ٹیم اسکے ساتھ ہے تو اسے کچھ نہیں ہوگا۔ یہ وہ یقین تھا جو میری ٹیم نے میرے گھر والوں کو دیدیا تھا اسی دن جب میں نے صحافت میں قدم رکھا تھا۔ اس وقت بھی میڈیا اور ایک سیاسی جماعت صرف جیو کے پیچھے لگا ہوا تھا اور بڑا ایکا تھا، فوج کوجب جیو نے للکارا تو بھی سارا میڈیا ایک طرف ہم اکیلے ایک طرف،،، ہم نے فیلڈ میں اس وقت بھی کام کیا جب ہماری نشریات بند کردی گئی تھی، ہمارے ادارے کا لوگو، ڈی ایس این جی وین کو دیکھ کر ہمارے خلاف نعرے بازی کی جاتی تھی، مجھے متعدد بار کہا گیا کہ یہ چینل چھوڑ دو لیکن میرا ایمان تھا کہ مشکل کی اس گھڑی میں میں اپنے لوگوں کو نہیں چھوڑ سکتی، لیکن پھر وہ وقت بھی آیا جب بول کے آنے کا چرچا ہوا اور کئی بڑے بڑے نام اس ادارے سے وابستہ ہوگئے، یہ وہ نام تھے جو میڈیا انڈسٹری میں بلا شبہ معتبر ہیں، ان ناموں کا بول سے وابستہ ہونے کی کئی وجوہات تھی، سب سے بڑی وجہ یہ لوگ کھل کربولنا چاہتے تھے، دوسری وجہ ان کا یہ ماننا تھا کہ صحافیوں کے ساتھ مالکان کا رویہ نامناسب ہے وہ صحافی کو اس کا جائز حق نہیں دے رہے جس کے وہ حقیقی طور پر حقدار ہیں، میڈیا میں کام کرنے والے کئی ہزار ملازمین کی تنخواہیں کئی برسوں سے نہیں بڑھی اورتو اور تنخواہوں  کا طویل انتظار ان ملازمیں کے شب وروز اور زندگی کو جس طرح متاثر کر رہا تھا اس سے مالکان آنکھیں بند کئیے بیٹھے تھے، جب کوئی صحافی، کیمرامین یا دیگر ملازم اپنی عرضی لیکر جاتا تو اسے یہ کہا جاتا کہ ادارہ اس وقت مالی مشکلات کا شکار ہے وہ تنخواہ وقت پر ادا نہیں کر پارہا اس سے تنخواہ بڑھانے کا تقاضا سراسر بیوقوفی ہے، لیکن جب ملازم دیکھتا کہ اینکرز کی مراعات میں اضافہ ہورہا ہے، نئے لوگوں کو مارکیٹ سے دوگنے داموں میں خریدا جارہا ہے، خوشامدی ٹولے کے پیسے بڑھا کر پارٹیاں کی جارہی ہیں تو وہ سوچتا کہ اسکی حالت کون بدلے گا؟ بول نے جب یہ نعرہ لگایا کہ وہ صحافی کو جینے کا حق دیگا اور سب سے بڑھ کر وقت پر تنخواہ دیگا تو وہ  ملازم بھی ہاتھ پاوں مارنے لگا،،، ہر شخص کو جینے کا حق ہے، ملازم کوبھی یہ حق ہے کہ وہ اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کا سوچے، مالک اگر اپنے بچوں کو لئے عالیشان گھر، آسائشیں اور مراعات وراثت میں  چھوڑ کر جانا چاہتا ہے تو ایک عام ملازم بھِی کرائے کے گھر سے نکل کر ایک چھوٹا سا گھر تعمیر کرنا چاہتا ہے، اپنی اولاد کو بیرون ملک نہ سہی اسی ملک میں  اچھے اسکول، کالج سے پڑھانا چاہتا ہے، وہ مالک کی طرح ڈالرز یا اربوں روپے بیرون ملک کے اکاونٹ میں نہ سہی اپنے اکاونٹ میں اتنے لوگ ضرور رکھنا چاہتا ہے جو اسکے بڑھاپے میں کام آسکے۔ فیلڈ پر کام کرنے والا ہر وہ شخص محاذ پر موجود اس سپاہی کی طرح ہوتا ہے جو گرمی، سردی، طوفان، سیلاب کی پرواہ کئے بغیراپنی ڈیوٹی سرانجام دیتا ہے، میری یہ مثال شاید ان "معتبر" ہستیوں کو ناگوار گزرے جو یہ کہتے ہیں کہ وطن سے محبت کا دعوہ کرنے والے سپاہی ملک کی حفاظت پیسے لیکر کرتے ہیں،،، کوئی ان سے پوچھے کہ آپ جب ٹھنڈے کمروں میں کافی کی چسکیاں لیتے ٹوئیٹ کرتے اسکرین پر دیکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ دھماکے کی فوٹیج کیمرامین سے کہو کہ قریب سے بنائے اور ایسی ایکسکلوزو بنائے جو ہمارے چینل کی ریٹنگ بڑھائے کیا آپ کبھی ایسے محاذ پر کھڑے ہوسکے ہیں جہاں دھماکہ ہوا ہو یا ہونے کا خدشہ ہو؟ نہیں ہر گز نہیں آپ کا شمار ان ہی میں ہوتا ہے جن کی مالک بنا کہے بنا سنے تنخواہ بڑھاتا چلا جاتا ہے، آپکی تنخواہ بڑھتی ہے تو آپ کی فرمائشیں ملازمین سے بڑھنے لگتی ہیں،،، ملازمین کے گھر والے ان سے کوئی فرمائش نہیں کرتے سوائے اس کے کہ تم جو اتنی محنت کرتے ہو اس کا معاوضہ تو وقت پر لے آیا کرو تاکہ بچے اسکول کی فیس ا دا نہ کرنے کے باعث گھر واپس نہ بھیجے جائیں، بل وقت پر ادا ہوجائے، مالک مکان گھر خالی کرنے کا نوٹس نہ دیدے۔ ایسے میں کوئی ملازم کہیں اور نہ جائے تو کیا کرے؟ ایسے ہی بہتر مستقبل کا خواب لئے، تنخواہوں میں تاخیر کے باعث ذلت کا سامنا کرنے والے، اداروں میں ترقیاں نہ ملنے والے، اپنے سامنے نئے آنے والوں کو چند مہینوں میں اوپر سے اوپر جاتا دیکھنے والوں نے ایک نئے ادارے میں خود کو ضم کیا،،، میں نے کئی لوگوں سے سنا جن کی آواز میں دکھ اور لہجے میں تھکاوٹ تھی جو یہ بتا رہے تھے کہ  ہم نے تو  فلاں ادارے کی بنیاد رکھی، ہم شروع کے ساتھیوں میں سے تھے جب ہم نے ادارہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا تو ہمیں کسی نے نہیں روکا۔ ورنہ ہمیں تو بہت پیار تھا اس جگہ سے لیکن ہماری ضرورتیں، ہماری فیملی، ہمارے مستقبل نے ہمیں یہ قدم اٹھانے پر مجبور کردیا،،،، وہ معتبر نام جوبول سے جڑے انکے اس کڑے وقت میں جانے کا فیصلہ درست ہے کہ نہیں؟ وہ اپنے بہتر مستقبل محفوظ کر چکے ہیں۔ انکی اولادوں کو کوئی  مسئلہ نہیں ہوگا۔ انکو نوکری ملے نہ ملے یہ پرواہ انھیں نہیں کیونکہ انھوں نے "ضمیر کی آواز" پر فیصلہ کیا،  انھوں نے جاتے وقت پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا کہ ان کے پیچھے کون کون کہاں کہاں سے بہتر مستقبل کا خواب لیکر آگیا،،، لیکن وہ جا چکے یہ ایک حقیقت ہے اور سب کو اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا،،،،، کل مجھ سے میرا خیال رکھنے والوں نے پوچھا سدرہ تم کب جارہی ہو؟ ان کا سوال کرنے کا انداز ایسا ہی تھا جیسے انھیں  گہرے پانی میں اتار دیا گیا ہو، وہ تیراکی بھول چکے ہوں  اور پوچھ رہے ہوں کہ تم کب کنارے پر جاو گی؟ میں نے ہنس کر جواب دیا،،،، ہمیشہ آپ نے میرا ساتھ دیا جب میرِی ڈیوٹی ختم ہوجاتی تھی تو آپ میری وجہ سے اوور ٹائم لگا لیا کرتے تھے، اس بار میری باری ہے،،،، جب تک آپ کی ڈیوٹی ختم نہیں ہوجاتی میں اوور ٹائم لگاونگی،،، ساتھ رہونگی،،،، جن لوگوں نے مجھے تیرنا سکھایا انھیں ڈوبتا کیسے چھوڑ جاوں،،،، یہ جنگ مالکان کی ہے جس نے ایگزیکٹ اسکینڈل سے بول کو شکست دینے کی کوشش کی، سارا میڈیا ایک ہوا اسلئے نہیں کہ جعلی اصلی کو بے نقاب کرے اس لئےکہ سالوں سے اس کے اداروں میں کم تنخواہوں پر کام کرنے والے کیسے اس سے علیحدہ ہوگئے؟ اصل لڑائی مالک کی مالک سے نہیں اس سوچ سے تھی جس میں صحافی کو بہتر مستقبل اور جینے کا راستہ دکھایا گیا،،، یہ سب کرکے مالک نے پیغام دیا کہ " دوٹکے کے ملازموں اپنی اوقات میں رہنا سیکھو" اور شاید مالک نے اپنے خوشامدی ٹولے کو بھی یہی لائن دی کہ پہلے تذلیل کرو بعد میں تعزیت کردینا،،،، تو صاحب آپ کی ٹوئیٹس، اسٹیٹس، کہانیوں، عبارتوں اور لفاظیوں کی ضرورت نہیں آپ اپنا مستقبل بنا چکے ہمیں اب یہ جنگ لڑنی ہے اس وقت تک،،، جب تک آخری مورچے پر سپاہی بیٹھا ہے، بس آپ اتنا کیجئے کہ آج ایک اور ٹوئیٹ کر دیجئے کہ سپاہی پیسے لیکر وفاداری نبھا رہا ہے، اوقات سے باہر ہورہا ہے،،، آپ کی شان سلامت رہے ہماری تو بس  یہی دعا ہے۔